واشنگٹن: امریکی ایئر فورس نے اپنے ہی جدید ترین لڑاکا طیارے کی ناکامیوں اور خامیوں کا اعتراف کرلیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق امریکی فضائیہ کے ایئر جیف کا کہنا ہے کہ ہم نے ایف 35 کو جن مقاصد کے لیے بنایا تھا وہ ان کے حصول میں ناکام رہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق امریکی فضائیہ کے چیف آف اسٹاف جنرل چارلس براؤن نے یہ انکشاف کیا ہے کہ امریکی فضائیہ کا F35 طیارہ ہماری امیدوں پر پورا نہیں اترا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ ایف 35 ایک مہنگا اور وزنی طیارہ ہے، اور اسکی مرمت پر بھی کافی زیادہ رقم خرچ ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے جس ضرورت کے پیش نظر اس طیارے کو بنایا تھا وہ فائدہ ہمیں حاصل نہیں ہو رہا ہے ۔
امریکی فضائیہ کے چیف آف اسٹاف نے اپنے ہی فضائی کی ناکامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ایف 35 کی تعریف کچھ یوں کی کہ ایف 35 لڑاکا طیارہ فراری کار جیسا ہے جس پر ہم روز آفس نہیں جا سکتے ہیں اسلیئے اسے صرف اتوار کے روز چلاتے ہیں۔
خیال رہے کہ ایف-35 دفاعی ٹیکنالوجی کے بین الاقوامی تعاون کی تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔
تازہ ترین تخمینے کے مطابق فضائیہ کے لیے تیار کیے جانے والے طیارے کی قیمت 45 ملین جبکہ بحریہ کے لیے بنائے جانے والے طیارے کی قیمت 60 ملین امریکی ڈالر ہے۔
اس طیارے کے ٹھیکے کے لیے دو بڑی امریکی طیارہ ساز کمپنیوں بوئنگ اور لاک ہیڈ مارٹن کے درمیان پانچ سال تک سخت کشمکش جاری رہی لیکن بالآخر پینٹاگون نے لاک ہیڈ مارٹن کے تیار کردہ پروٹوٹائپ ایکس۔ 35 کو امریکی فضائیہ، بحریہ اور میرین کور کے لیے منتخب کر لیا جسے اب ایف۔ 35 کہا جاتا ہے۔
اس طیارے کی خاص بات اس میں سٹیلتھ ٹیکنالوجی کا استعمال اور اس کی عمودی پرواز اور لینڈنگ کی صلاحیت ہے۔
یہ امریکی فضائیہ میں ایف 16 اور اے-10 تھنڈربولٹ جبکہ امریکی بحریہ اور میرین کور میں ایف-18 اور ہیریئر جمپ لڑاکا طیاروں کی جگہ لے گا۔