(این پی جی میڈیا) آسٹریلیا نے بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے باعث میانمار سے فوجی تعلقات منقطع کردیئے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق آسٹریلیا ان 13 ممالک میں شامل تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ فوجی بغاوت کے دوران میانمار کا کنٹرول حاصل کرنے والی فوج کو مدد فراہم کررہی ہے۔
تفصیلات کے مطابق آسٹریلوی وزیر خارجہ ماریس پینے نے کہا ہے کہ بڑھتے ہوئے تشدد اور زیادہ ہلاکتوں کے خدشات کی وجہ سے آسٹریلیا نے میانمار کے ساتھ اپنے دفاعی تعاون کے پروگرام کو معطل کردیا ہے۔
خیال رہے کہ یکم فروری کو فوج نے منتخب رہنما آنگ سان سوچی اور ان کی نیشنل لیگ برائے ڈیموکریسی پارٹی کے عہدیداروں کو حراست میں لے کر ملک کا کنٹرول سنبھال لیا تھا جس کے بعد فوج نے کریک ڈاؤن شروع کردیا۔
میانمار بحران میں ڈوب چکا ہے اور اس بغاوت نے قومی سول نافرمانی کی تحریک اور بڑے پیمانے پر مظاہرے کو جنم دیا ہے جس میں درجنوں افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق آسٹریلوی وزیرخارجہ پینے نے کہا ہے کہ ہم میانمار کی سیکیورٹی فورسز سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور عام شہریوں کے خلاف تشدد سے باز رہیں۔
خیال رہے کہ میانمار کی فوج کے ساتھ آسٹریلیاکے باہمی دفاعی تعلقات غیر جنگی علاقوں تک ہی محدود ہیں جیسے انگریزی زبان کی تربیت جو 2017 میں ریاست راکھین میں وحشیانہ کریک ڈاؤن کے بعد بھی جاری ہے جس کی وجہ سے سیکڑوں ہزاروں مسلمان روہنگیا سرحد پار سے بنگلہ دیش بھاگ گئے تھے۔
زرائع کے مطابق بارہ ممالک ابھی بھی برمی فوج کے ساتھ تربیت اور تعاون میں مصروف ہیں۔ برمی فوج کو تربیت فراہم کرنے والے ممالک نے فوج کا ساتھ دیا ہے ، جو پرامن مظاہرین کو گولی سے اڑا رہے ہیں۔
علوہ ازیں آسٹریلین حکام کا کہنا ہے کہ وہ ماہر معاشیات اور آنگ سان سوچی کے مشیر شان ٹورنیل کی فوری رہائی کا مطالبہ جاری رکھے گا۔ بغاوت کے بعد سے ٹورنل کو قونصلر تک محدود رسائی کے ساتھ حراست میں لیا گیا ہے۔