عظیم گلوکارنصرت فتح علی خان کو لوگوں کو بچھڑے ہوئے 24 برس گزر گئے،اس سلسلے میں شوبز حلقوں میں مختلف تقریبات کا اہتمام کیا جائے گا
1948 فیصل آباد میں معروف قوال فتح علی خان کے گھر پیدا ہونے والے نصرت فتح علی خان قوالی اورلوک موسیقی میں اپنی پہچان آپ تھے۔ نصرت فتح علی خان کا پہلا تعارف خاندان کے دیگرافراد کی گائی ہوئی قوالیوں سے ہوا۔ ’’حق علی مولا علی‘‘ اور’’دم مست قلندرمست مست‘‘ نے انہیں شناخت عطا کی۔
موسیقی میں نئی جہتوں کی وجہ سے ان کی شہرت پاکستان سے نکل کرپوری دنیا میں پھیل گئی۔ بین الاقومی سطح پرصحیح معنوں میں ان کا تخلیق کیا ہوا پہلا شاہکار1995 میں ریلیز ہونے والی فلم’’ڈیڈ مین واکنگ‘‘ تھا جس کے بعد انہوں نے ہالی ووڈ کی ایک اور فلم ’’دی لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ‘‘ کی بھی موسیقی ترتیب دی۔
ابتدائی زمانے میں پرفارمنس کے دوران ان کا انداز روایتی قوالوں کی طرح رہا، مگر جب انھوں نے اس فن میں کلاسیکی موسیقی اور پاپ میوزک کے ملاپ کا تجربہ کیا تو ان کی شہرت کا آغاز ہوا اور پھر 1980 کی دہائی کے اواخر میں ایک غیرملکی فلم کا سائونڈ ٹریک تیار کرنے کی ذمہ داری اٹھائی تو شاید خود وہ بھی نہیں جانتے تھے کہ وہ شہرت اور مقبولیت کی کن انتہاؤں کو چھونے جارہے ہیں۔ 90 کی دہائی میں پاکستان اور ہندوستان میں ان کی موسیقی نے دھوم مچا دی اور انھوں نے فلمی موسیقی بھی ترتیب دی۔
“دم مست قلندر، آفریں آفریں، اکھیاں اڈیک دیاں، سانوں اک پل چین نہ آئے اورغم ہے یا خوشی ہے تُو” کی شہرت دور دور تک پھیل گئی جب کہ ان کی آواز میں ایک حمد، “کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے” کو بھی بہت زیادہ سنا اور پسند کیا گیا۔
نصرت فتح علی خاں کی قوالی کے 125 سے زائد آڈیو البم جاری ہوئے اوران کا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل ہے۔ استاد نصرت فتح علی خاں نے فن موسیقی کی روحانی کیفیات کے ذریعے پوری دنیا کو مرید بنائے رکھا۔ عالمی سطح پر جتنی شہرت انھیں ملی وہ شاید کسی اور موسیقاریا گلوکارنصیب نہیں ہوئی۔
وہ حقیقی معنوں میں پاکستان کے بہترین سفیر تھے کہ جہاں لفظ ’’پاکستان‘‘ سے لوگ ناواقف تھے وہاں پاکستان کو ایک عظیم ملک کے طورپرمتعارف کرایا۔ موسیقارایم ارشد نے کہا کہ وہ لاجواب آرٹسٹ اورمیوزک کو سمجھنے والے آدمی تھے۔ ان جیسے فنکار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اگریہ کہا جائے کہ وہ موسیقی کے ماتھے کا جھومرتھے توبے جا نہ ہوگا۔
عظیم گلوکارکوصدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سمیت متعدد ملکی اورغیرملکی ایوارڈزسے نوازا گیا۔ 1987 میں حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس، نگار ایوارڑ سمیت متعدد ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ نصرت فتح علی خان گردوں کے عارضے میں مبتلا ہونے کے باعث صرف 48 سال کی عمرمیں 16اگست 1997ء کودنیا سے کوچ کر گئے مگر ان کا فن آج بھی انہیں زندہ رکھے ہوئے ہے۔